سجا رہا ہے جو اب دل کے آئنے میں مجھے
وہ چھوڑ جائے گا اک روز راستے میں مجھے
بھلا کے اس کو میں سب کچھ ہی بھول بیٹھا تھا
سو اُس کو لانا پڑا پھر سے حافظے میں مجھے
طلسمِ شب میں گھلی جب حسیں بدن کی مہک
جدا لگا تھا ترا لمس ذائقے میں مجھے
تو کیا ثبوت نہیں ہے چراغ ہونے کا
وہ شخص روز جلاتا ہے طاقچے میں مجھے
عجب خمار بدن کی حدوں میں اترا ، جب
وہ لڑکی شعر سناتی رہی مزے میں مجھے