سخن رہے گا، سخنور بھی کم نہیں ہوں گے

یہ اور بات ہے کاغذ قلم نہیں ہوں گے

ملے گا شورِ ستائش تو شعر خوانوں کو

سخن شناس کنائے بہم نہیں ہوں گے

جو چل بھی جائے نظر پر طلسمِ نقش و نگار

حروفِ خام تو دل پر رقم نہیں ہوں گے

مذاقِ شعر بدل دے گا جب مزاجِ ہنر

خدا کا شکر ہے اُس وقت ہم نہیں ہوں گے

ہمارے درد الگ ہیں، ہمارا لہجہ الگ

کبھی بھی شورِ زمانہ میں ضم نہیں ہوں گے

ہمارے سینے میں ٹوٹی ہے آ کے تیغِ ستم

ہمارے بعد کسی پر ستم نہیں ہوں گے

جنہیں شناخت ہماری ہی دشمنی سے ملی

رہیں گے وہ بھی نہ باقی جو ہم نہیں ہوں گے

تمہارا ہجر سلامت، تمہارے غم آباد

کبھی اکیلے خدا کی قسم نہیں ہوں گے

یہ سوچ کر میں غموں میں بھی شاد رہتا ہوں

وہ دن بھی آئیں گے رنج و الم نہیں ہوں گے

عجیب راہ چلا ہوں دیارِ غربت میں

گزر گیا بھی تو نقشِ قدم نہیں ہوں گے

ملا ہے کاسۂ خود دار اُس کے در سے ظہیرؔ

تمام عمر تہی دست ہم نہیں ہوں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]