سخن کی کھیتی پہ جیسے اُترے ثنا کے موسم

بصد تنوع مہکتے آئے عطا کے موسم

طلوعِ صبحِ جمالِ مدحت کی تازگی سے

بکھرتے جائیں گے ابتلا و بلا کے موسم

کمال پروَر ہے کوئے جاناں کی موجِ نکہت

جمال افزا ہیں قریۂ دلرُبا کے موسم

صراطِ جاوءک پر شفاعت نے جب سنبھالا

تو کون جانے کدھر گئے پھر خطا کے موسم

تمہاری خاطر ہی منضبط ہے نظامِ امکاں

تمہارے ہی ، بالیقیں ہیں موسم ، سدا کے موسم

بہار آسا ، نوید پروَر ، حیات یاور

بڑے ہیں فیاض اُس سخی کی سخا کے موسم

تمہارے لطف و کرم پہ موقوف ہے عنایت

تمہاری مرضی پہ ہیں خُدا کی رضا کے موسم

طَلب سے پہلے عطا وہ کرتے ہیں سائلوں کو

خجل ہیں پیشِ حضور سب التجا کے موسم

درِ عنایاتِ حرفِ مدحت پہ ایستادہ

سکوت خُو میرے حرف جُو التجا کے موسم

درود کی سمت سے کُمک پر نظر جمی ہے

درِ اجابت پہ منتظر ہیں دُعا کے موسم

مجھے تو مقصودؔ اُن کی بخشش سے حوصلہ ہے

ہیں جن کے فیضان کا حوالہ بقا کے موسم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]