سخن کے نام پہ شہرت کمانے والے لوگ

ہماری غزلوں سے مصرع اٹھانے والے لوگ

لٹا رہے ہیں زمانے میں آج بینائی

کسی کی آنکھ سےسرمہ چرانے والے لوگ

بدل چکے ہیں ترے شہر کے گلی کوچے

بھٹک بھی سکتے ہیں رستہ بتانے والے لوگ

نہ پوچھ زندگی کیسے ، گزارا کر رہے ہیں

نئے دنوں میں پرانے زمانے والے لوگ

ہم اپنے دکھ کو گلے سے لگا کے جی لیں گے

رہیں گے خوش کہاں دل کو دکھانے والے لوگ

تمہارے لفظوں نے دل پر لگائی ایسی چوٹ

بکھر گئے ہیں محبت جتانے والے لوگ

سفر کی وحشتیں تنہا نکل پڑی ہیں مگر

ٹھہر گئے ہیں مرے ساتھ جانے والے لوگ

ہماری موت کا کیوں انتظار ہے ان کو

ہماری زندگی میں تھے جو آنے والے لوگ

وہ آج لفظ کی تذلیل پر اتر آئے

کہیں غزل تو کہیں گیت گانے والے لوگ

نجانے کون زمانے میں جا بسے قیصر

ہنسی مذاق میں غم کو اڑانے والے لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]