سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے

مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے لگے

یہ تو ان کی عنایات کی بات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات ہے

جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھا اس کے دامن میں تارے اترنے لگے

یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھنا سدا اے مرے چارہ گر اے شہ دوسرا

تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں بھرنے لگے

قطب و ابدال غوث و ولی متقی سب کی محسن ہے نورِ تجلی تیری

روشنی تیرے کردار کی پا کے سب سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے لگے

عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ نہیں

ہو گئی جن کے دل کو بصارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے لگے

کچھ عجب وضع سے کر رہے ہیں بسر تیرے عشاق سب اپنے شام و سحر

جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتا دیکھا کسی کو تو مرنے لگے

اے خدا آسؔ کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے سب کے قلب و نظر

بے سہاروں کو تسکین جو بخش دے غم کے ماروں کے جو زخم بھرنے لگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]