سر نہ سجدے سے اٹھا تاخیر پر تاخیر کر

ذرے جو تحتِ جبیں آئے انہیں اکسیر کر

بندۂ رب بن کے روشن اپنی تو تقدیر کر

عالمِ کن ہے ترا قبضے میں یہ جاگیر کر

عشقِ باری، حبِّ احمد، انسِ مخلوقِ جہاں

یہ ہیں اجزائے ثلاثہ ان سے دل تعمیر کر

دامنِ ہستی میں تیرے جو ہیں ذرے خاک کے

ضربِ اللہ ھو سے اس مٹی کو پُر تنویر کر

اس طرح سے کچھ نہ کچھ شاید کہ ہلکا بوجھ ہو

اضطرابِ دل نظرؔ اپنا تو عالم گیر کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]