سرشارئ قسمت کو یہ انعام بہت ہے

پیش و پسِ احساس ترا نام بہت ہے

بندے کو نہیں خلعتِ شاہی کی ضرورت

بندے کو تری نعت کا احرام بہت ہے

آلام زدہ خاطرِ تسکین طلب کو

اِک نعت تری قاسمِ آرام ! بہت ہے

اِک موجِ نظر بہرِ طلب زارِ تجلی

اِک چشمِ کرمِ بار پئے خام ، بہت ہے

کیا نام و نسَب ، شان و شرَف ، عز و کرامت !

بَردے کو ، ترا ہونے کا اکرام بہت ہے

للہ ! مرا ہاتھ پکڑ لے مری قسمت

چل ، سوئے مدینہ مجھے یک گام بہت ہے

اِک دید ، فقط دید مرے ماہِ منور !

اِک خواب ، پسِ خواب ، پسِ بام بہت ہے

نکہت کو تری نعت کی تاثیرِ سحَر خُو

طلعت کو ترا نام سرِ شام ، بہت ہے

مقصودؔ مدینے کی ثنا گوئی کے صدقے

اُس شہر سے نسبت ہی کا اِعلام بہت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]