سمایا ہے نگاہوں میں رُخِ انور پیمبر کا

اُٹھا دو جامِ جم ، لے جاؤ آئینہ سکندر کا

وہ جس کے دم قدم سے عظمتِ انسانیت اُبھری

چمک اُٹھا ستارہ نوعِ انساں کے مقدّر کا

عبودیّت میں جس کو تھا مقامِ عبدہ‘ حاصل

سعادت میں جسے رُتبہ ملا محبوبِ داور کا

وہ جس کی آنکھ نے نظّارۂ حق یوں کیا ، گویا

نظر کے رو برو تھا عکس اپنے روئے انور کا

وہ جس کے فقر کے آگے نگوں سر تھی شہنشاہی

وہ جس کے بوریے پر سر جھکا فغفور و قیصر کا

یہ حُسنِ خلق، یہ لطفِ نظر ، یہ عفو ، یہ بخشش

خراماں جس طرح کیفِ رواں تسنیم و کوثر کا

وہ اِک آنسو جو اُس کی یاد میں آنکھوں سے ٹپکا ہے

وہی آنسو ستارہ ہے مِرے حُسنِ مقدر کا

تبسمؔ ! مجھ سے عاصی کا یہی بس اِک سہارا ہے

کہ میں ادنیٰ گدا ہوں سرورِ کونیں کے در کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]