سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرض مہ و سال بھی اتارا نہیں

بس ایک شام اسے آواز دی تھی ہجر کی شام

پھر اس کے بعد اسے عمر بھر پکارا نہیں

ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو

مزاج پرسی باد صبا گوارا نہیں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

وہ ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سر بازار

جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

ہم اہل دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امین

ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]