سمجھ رہے ہیں کسی آسماں میں رہتے ہیں

یہ خوش گمان جو تیرے گماں میں رہتے ہیں

ترے خیال میں پل بھر ٹھہر گئے تو بہت

ہم ایسے لوگ کہاں داستاں میں رہتے ہیں

عجب جنوں ہے ، عجب نارسائی ہے اپنی

کہ دشت زاد ہیں ، شہرِ بتاں میں رہتے ہیں

جو دن سے تھک کے پہنچتے ہیں گھر تو ساری رات

درِ شکستہ سے لگ کر مکاں میں رہتے ہیں

ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں اک سوال اور پھر

تمام عمر کسی امتحاں میں رہتے ہیں

وہ ابتدا بھی تری تھی یہ انتہا بھی تری

کہ ہم تو ایک رہِ رائیگاں میں رہتے ہیں

نہ آئیں گے ترے اس رعب کے اثر میں کبھی

کہ ہم فقیر خود اپنی اماں میں رہتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]