سوختہ سر کو نہیں اس بات کا ادراک بھی

چاک کر سکتا ہے یہ دل جسم کی پوشاک بھی

یہ سکوں ہے یا سکوتِ مرگ ہے کچھ تو کہو

مطمئن سو جاؤں اب میں ، یا کہ اوڑھوں خاک بھی؟

ضبط کی تاریکیوں میں جھلملاتے ہیں ابھی

موتیوں سے دانت بھی اور دیدہِ نمناک بھی

اک قیامت خیز خوابیدہ جنوں کو چھیڑنا

اور پھر آ کر دکھانا سینہِ صد چاک بھی؟

محوِ گردش تھی زمیں بھی ایک تو قدموں تلے

دوسرے کاندھے پہ اس نے دھر دیے افلاک بھی

کرب و وحشت کا تناسب تھا برابر شعر میں

احتجاجی چیخ بھی تھی ، نعرہِ بے باک بھی

عہدِ بد ذوقی میں جاہل وحشیوں کے غول نے

لُوٹ لیں ناصر فقیرِ عشق کی املاک بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]