سکوتِ ذکر تھا صوت وصدا سے دُور نہ تھے

سکوتِ ذکر تھا صوت و صدا سے دُور نہ تھے

پیمبری کے صحیفے حرا سے دور نہ تھے

اتر رہی تھی کچھ ان میں بھی روح سے شبنم

ہمارے ہونٹ جو حرفِ ثنا سے دور نہ تھے

بٹھا کے شانوں پہ خوشبو کو لے گئی طیبہ

کھڑے تھے ہم بھی چمن میں صبا سے دور نہ تھے

حروفِ عطر فشاں میں تھی بوئے نورانی

حضور پاس تھے مدحت سرا سے دور نہ تھے

یہ کائنات تو ان پر بھی ناز کرتی ہے

وہ خوش نصیب جو خیر الوریٰ سے دُور نہ تھے

ادائے لطفِ نگہ میں ہی ایسی تابش تھی

کہ دستِ جَور بھی فیضِ حنا سے دور نہ تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]