مصائب کی سر پر کڑی دھوپ ہے
بُلا لو مدینے بڑی دھوپ ہے
یہاں ہجر میں چھاؤں بھی خار ہے
وہاں پھول کی پنکھڑی، دھوپ ہے
جو خضریٰ کی چھاؤں نے دی ہے صدا
سمجھ لو گھڑی دو گھڑی دھوپ ہے
تمازت کی برچھی جو لذت میں ہے
ترے در کی دل میں گڑی ُدھوپ ہے
ہو جس کے بھی پیشِ نظر در ترا
کہاں اس کے پیچھے پڑی دھوپ ہے
جو زائر ہیں طیبہ کے اُن کے لئے
چنبیلی کی روشن لڑی دھوپ ہے
ستارہ سا ہے جو ،ترے شہر کی
مژہ پر ذرا سی اَڑی دھوپ ہے
یہ گنبد پہ ہے جو سنہری رِدا
نگینے میں عادل جڑی دھوپ ہے