سکھائی ناز نے قاتل کو بے دردی کی خو برسوں

رہی بیتاب سینہ میں ہماری آرزو برسوں

گرا سجدے میں تجھ کو دیکھتے ہی وائے رسوائی

کیا تھا جس ولی نے آب زمزم سے وضو برسوں

عجب حالت میں ہو جاتا ہے اس کا دیکھنے والا

نہ پائے آپ کو ہرگز کرے گر جستجو برسوں

نہ پوچھو بے نیازی آہ طرز امتحاں دیکھو

ملائی خاک میں ہنس ہنس کے میری آبرو برسوں

خرابی ہو گئی زاہد بنایا ہجر ساقی نے

عزیزؔ افسوس الگ رہتا ہے ساغر سے سبو برسوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]