سیرت حضور کی یہی مژدہ سنائے ہے

ہر رہگزر ہی شہرِ پیمبر کو جائے ہے

قرآن کا ہے محور و مقصود اُن کی ذات

اور الفتِ حضور ہی رب سے ملائے ہے

کیا معتبر ہے ذات تری کیا وقار ہے

ربِ کریم بھی تری قسمیں اُٹھائے ہے

محشر میں اُس شفاعتوں والے کی ہے تلاش

ہر اِک وہاں حساب سے نظریں چرائے ہے

سِدرہ سے آگے تیرے سفر کی ہے ابتدا

جبریلؑ بھی کھڑا یہاں سر کو جھُکائے ہے

ہر فردِ کائنات سے بڑھ کر ہو اُن سے پیار

ہے اُمتی وہی جو یہ رشتہ نبھائے ہے

حکمِ نبی پہ ناز سے خوش ہوکے جھوم کے

صدیقِؓ باوفا ہے جو سب کچھ لٹائے ہے

اے حبشہ کے بلالؓ ترے عشق کو سلام

ہر ِاِک اذاں میں سوز ترا جگمگائے ہے

ایمان کی سلامتی دینا مرے خدا

یہ دور دل سے یادِ پیمبر بھلائے ہے

کہتی ہے بس شکیلؔ یہی خاکِ کربلا

عشقِ خدائے مصطفیٰٔ کیا کیا کرائے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]