شاخ پر بیٹھا اِک پرندہ تھا

میں جسے اپنا خواب سمجھا تھا

دو گھڑی کو وہ پاس ٹھہرا تھا

کون جانے وہ شخص کیسا تھا

دیکھ آنگن میں تیرے چمکا ہے

میری قسمت کا جو ستارہ تھا

آج اُس نے بھی خود کشی کر لی

جس کو مرنے سے خوف آتا تھا

گھُل گئی ساری تلخی لہجے کی

چائے کا ذائقہ تو میٹھا تھا

ق

ہم جُدا راستوں کے رہرو تھے

وقت کچھ ساتھ بھی گذارا تھا

تیری کوئی الگ ہی منزل تھی

میرا کوئی الگ ہی رستہ تھا

بیت جائے گا یہ دسمبر بھی

وہ نہ آیا اُسے نہ آنا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]