شاعر محمد حسن نجمی سکندرپوری کا یومِ پیدائش
آج اردو کے شاعر محمد حسن نجمی سکندرپوری کا یومِ پیدائش ہے۔
نام محمد حسن، نجمیؔ تخلص اور حسن نجمی قلمی نام تھا۔
یکم نومبر ۱۹۱۳ء کو قصبہ سکندرپور، ضلع بلیار (یوپی) میں پیدا ہوئے۔
اردو مڈل ، ہندی مڈل،منشی(فارسی)، اعلی قابلیت(اردو)، وی ٹی سی(نارمل) اور انگریزی ہائی اسکول کے معیار تک تعلیم حاصل کی۔
پہلے ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت درس وتدریس سے وابستہ رہے۔ بعد ازاں ساؤتھ ایسٹرن ریلوے میں بمقام کھٹرک پور، ضلع مدنا پور(مغربی بنگال) میں ملازم رہے۔
پرویز شاہدی اور شریف چکوالی سے تلمذ حاصل رہا۔
۸؍ دسمبر ۱۹۹۰ء کو سکندر پور میں انتقال کرگئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’موم کی عورت‘‘(افسانوں کا مجموعہ۔ہندی)
’’یاپھول کھلے ویرانے میں‘‘(افسانے۔ اردو)،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : جدید عہد کے نامور غزل گو شاعر عمیر نجمی کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’شب چراغ‘‘(شعری مجموعہ) جس کو اترپردیش اور مغربی بنگال دونوں اردواکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کو پاس وفا آج بھی کرتے دیکھا
ایک پتھر کے لیے جی سے گزرتے دیکھا
پست غاروں کے اندھیروں میں جو لے جاتی ہیں
وہ اڑانیں بھی تو انسان کو بھرتے دیکھا
جبھی لائی ہے صبا موسم گل کی آہٹ
برگ افسردہ ہوۓ شاخوں کو ڈرتے دیکھا
تری دہلیز پہ گردش کا گزر کیا معنی
تجھ کو جب دیکھا ہے کچھ بنتے سنورتے دیکھا
بے صدا ہی سہی پر سنگ صفت ہیں لمحے
ان کی آغوش میں ہر شے کو بکھرتے دیکھا
جو بھی بیتی سر فرہاد پہ بیتی نجمیؔ
کسی پرویزؔ کو تیشے سے نہ مرتے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بیتے ہوۓ لمحوں کے جو گرویدہ رہے ہیں
حالات کے ہاتھوں وہی رنجیدہ رہے ہیں
ان جلووں سے معمور ہے دنیا مرے دل کی
آئینوں کی بستی میں جو نادیدہ رہے ہیں
رندان بلا نوش کا عالم ہے نرالا
ساقی کی عنایت پہ بھی نم دیدہ رہے ہیں
برسوں غم حالات کی دہلیز پہ کچھ لوگ
گل کر کے دیۓ ذہنوں کے خوابیدہ رہے ہیں
ہر دور میں انسان نے جیتی ہے یہ بازی
ہر دور میں کچھ مسئلے پیچیدہ رہے ہیں
انسان کی صورت میں کئی رنگ کے پتھر
ہم سینے پہ رکھے ہوۓ خوابیدہ رہے ہیں
مجرم کی صفوں میں ہیں وہ مظلوم بھی جن سے
نجمیؔ نے جو کچھ پوچھا تو سنجیدہ رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : ماہر علم عروض مولوی نجم الغنی خان نجمی رام پوری کا یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینے سے نہ ڈرو اپنا سراپا دیکھو
وقت بھی ایک مصور ہے تماشا دیکھو
کر لو باور کوئی لایا ہے عجائب گھر سے
جب کسی جسم پہ ہنستا ہوا چہرہ دیکھو
چاہیۓ پانی تو لفظوں کو نچوڑو ورنہ
خشک ہو جاۓ گا افکار کا پودا دیکھو
شہر کی بھیڑ میں شامل ہے اکیلا پن بھی
آج ہر ذہن ہے تنہائی کا مارا دیکھو
وہ جو اک حسرت بے نام کا سودائی ہے
اس کو پتھر نے بڑی دور سے تاکا دیکھو
حد سے بڑھنے کی سزا دیتی ہے فطرت سب کو
شام کو کتنا بڑھا کرتا ہے سایا دیکھو
اب تو سر پھوڑ کے مرنا بھی ہے مشکل نجمیؔ
ہاۓ اس دور میں پتھر بھی ہے مہنگا دیکھو