شامل ہے یہ سوال بھی اب کے ملال میں

کیا کر لیا جنوں نے چوالیس سال میں

اب سُست پڑ چلی ہے روانی خیال کی

اب فرق آ گیا ہے لہو کے اُبال میں

باقی اگر سفر ہے تو اُترائیوں کا ہے

صحراء نوردِ عُمر ہے دشتِ زوال میں

آخر کو اختیار فقیری ہی کی گئی

راضی ہوا نہ عشق کسی اور حال میں

جس جس طرح سے فرض کیا ہجر میں تمہیں

وہ وسعتیں کہاں ہیں بساطِ وصال میں

اَئے عُمر ، دستِ شفقت و نگراں نظر ہٹا

کتنے ہی کانچ چُور ہوئے دیکھ بھال میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]