شان ، پہچان اور شرَف کے چراغ

مدحتِ شاہ سے شغَف کے چراغ

ضَوفشاں ہیں بہ اوجِ مطلعِ دید

ایک دستِ ضیا کی کَف کے چراغ

قبر میں بھی چلیں گے ، حشر میں بھی

تیری نسبت ، تری طرَف کے چراغ

تا ابد نُور بار و ضَو انگیز

تیرے نعلینِ پا سے لَطف کے چراغ

اُفقِ نعت پر سحَر آثار

طلع البدر والی دَف کے چراغ

حجرۂ ذات میں فروزاں ہیں

آپ کی یاد کی صدَف کے چراغ

متنِ مدحت ہے مایۂ طلعت

فکر و فن تو ہیں بس خزَف کے چراغ

تیری نسبت سے ہیں ضیا یاور

کربلا کے رنگیں ، نجَف کے چراغ

محتشم ہیں ترے نسب کے طفیل

وہ سلَف کے ہوں یا خلَف کے چراغ

صدقۂ نسبتِ شہِ جیلاں

ساتھ رکھتا ہُوں ’’ لا تخَف ‘‘ کے چراغ

نعت ہی عمر بھر رہے مقصودؔ

یونہی روشن رہیں ہدَف کے چراغ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]