شب گزیدہ زیست میں وجہِ ضیا ہے بالیقیں

مدحتِ آقا متاعِ بے بہا ہے بالیقیں

اُن کا ہی اسمِ کرم ہے طلعتوں کا نقشِ جاں

باعثِ تسکینِ دل اُن کی ثنا ہے بالیقیں

دیر سے دھڑکا نہیں ہے، دیر سے چہکا نہیں

دل مدینے میں کہیں پر جا بسا ہے بالیقیں

ایسے ہی خنداں نہیں ہیں شہر کے دیوار و در

اذن بر لب موجۂ بادِ صبا ہے بالیقیں

ایک اِک منظر کو کیا باندھوں خطِ تمثیل سے

حُسن منجملہ ہی تیرا نقشِ پا ہے بالیقیں

دیدئہ مبہوت پر کھُلتا ہے یوں گنبد تِرا

آسماں کو ارض پر رکھا گیا ہے بالیقیں

بے خطا اپنا عقیدہ، بے خطر اپنا سفر

وہ خُدا ہر گز نہیں اور نا خُدا ہے بالیقیں

مطلعِ احساس پر چمکا ہے یوں تیرا کرم

جیسے اِک امکان نے کھینچی صدا ہے بالیقیں

بے سبب کھِلتے نہیں ہیں حرف زارِ آگہی

خامۂ اظہار پر تیری عطا ہے بالیقیں

اِس لیے تو چُھو نہیں سکتے ہمیں رنج و الم

اِسم تیرا شافع و مُشکل کشا ہے بالیقیں

یُوں بھی تو مقصودؔ بنتی ہے سبیلِ حاضری

وہ شفیعِ مُذنبیں، تُو پُر خطا ہے بالیقیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]