شبِ سخن کو طلعتوں کے طاقچے عطا ہُوئے

حروف کو جو مدحتوں کے قمقمے عطا ہُوئے

بہشتِ شوق بن گئیں سفر کی ساری منزلیں

مدینہ رو کو رحمتوں کے راستے عطا ہُوئے

پھر اس کے بعد آنکھ کا نہیں جلا چراغِ شب

میانِ دید حیرتوں کے سلسلے عطا ہُوئے

عجیب دلنواز تھی وہ وصلِ نُور کی گھڑی

کہ ہجر کو بھی قُربتوں کے ذائقے عطا ہُوئے

جوارِ شہرِ نُور میں بھی انتہا کا کیف تھا

کہ دشت میں بھی نکہتوں کے معجزے عطا ہُوئے

رگِ حیات میں تھا ارتعاشِ نعت سر بسر

نقیبِ دل کو چاہتوں کے زمزمے عطا ہُوئے

یہ سب مدینے والے کے کرم کی ہیں لطافتیں

جبیں پہ جتنے قسمتوں کے حاشیے عطا ہُوئے

لرز رہا تھا لغزشوں کے جو مہیب خواب میں

اُسے بھی تیری شفقتوں کے حوصلے عطا ہُوئے

مَیں بے ہُنر ضرور ہُوں مگر نہیں ہُوں کم طلب

کہ تجھ کو ساری قدرتوں کے زاویے عطا ہُوئے

عروض کی گلی میں زیرِ پا تھی شعر کی زمیں

کرم ہُوا کہ نُدرتوں کے قافیے عطا ہُوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]