شبِ وعدہ ہے تُو ہے اور میں ہوں

شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں

ہجوم آرزو ہے اور میں ہوں

دل بیگانہ خو ہے اور میں ہوں

بغل میں اک عدو ہے اور میں ہوں

مٹاتا ہی رہا جس کو مقدر

وہ میری آرزو ہے اور میں ہوں

پریشاں خاطری کہتی ہے اپنی

کسی کی جستجو ہے اور میں ہوں

شب تنہائی فرقت میں دل سے

کچھ اس کی گفتگو ہے اور میں ہوں

گلستاں جہاں ہے قابل سیر

طلسم رنگ و بو ہے اور میں ہوں

نگاہ لطف دلبر کا ہے اظہار

پھٹے دل کا رفو ہے اور میں ہوں

کہیں چھوڑا اگر قاتل کا دامن

تو پھر میرا لہو ہے اور میں ہوں

جلالؔ اس کو بنایا اس نے دشمن

قیامت میں عدو ہے اور میں ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]