شجر کہاں تک بھلا ہواؤں کے کان بھرتے
اگر پرندے خلوص دل سے اڑان بھرتے
وہ سرخ پھولوں سا شخص بازار آیا ہوتا
تو سارے خوشبو فروش اپنی دکان بھرتے
اے کم میسر !! ترا نہ ہونا تو طے شدہ تھا
مگر جو نقصان ہو چکا وہ تو آن بھرتے
ہمارے ملنے کی شرط شائد بہت کڑی تھی
کہ جس کا تاوان عمر بھر خاندان بھرتے
یہ چوٹ گہری بہت ہے کومل مجھے خبر ہے
لگے گی مدت یہ گھاو،، ان کے نشان بھرتے