شجر کے دل میں گھاؤ کر گیا ہے

حجر تک میں رچاؤ کر گیا ہے

عطا کر کے کمر بوسی کی دولت

ستونوں کو غزل گو کر گیا ہے

اتر آیا ہے گر ناز و ادا پر

اشارے سے قمر دو کر گیا ہے

اٹھا ہے ابرِ رحمت بار بن کر

غبار دشمنی دھو کر گیا ہے

بہارِ عظمتِ آدم ہے ان سے

جو گل بوٹے یہاں بو کر گیا ہے

وہ اپنی اولیں پرواز ہی میں

خجل روح الامیںؒ کو کر گیا ہے

کوئی بھٹکا پھرے اس کی بلا سے

وہ ہر سو روشنی تو کر گیا ہے

نشان راہ اس کے طور و سدرہ

یہاں تک ارتقا لو کر گیا ہے

زمانہ تا ابد دہرا سکے گا

شب معراج میں جو کر گیا ہے

وہی پہنچا حریم کبریا تک

جو ان کی راہ سے ہو کر گیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]