شہرِ خزاں کو اے مرے مولا نکھار دے

موسم بہار کا اِسے پھر کرد گار دے

عصیاں کا بوجھ سر سے ہمارے اُتار دے

یارب تو پُل صراط سے ہم کو گزار دے

رہزن بنے ہوئے ہیں ہمارے یہ حکمراں

حاکم ہمیں تُو نیک دے اور با وقار دے

مظلوم ! کے لبوں پہ صدائیں ہیں اب یہی

ظالم کو اب تو اور نہ راہِ فرار دے

ہے حکمراں کوئی تو ، غلامی میں ہے کوئی

مولا ! تو جس کو چاہے اُسے اختیار دے

کاسہ کسی کے ہاتھ میں ، ہے تاجور کوئی

’’ یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے ‘‘

طاہرؔ ہے ملکِ پاک لہو رنگ آج کل

اے ربِّ کائنات کرم کی بہار دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]