صبا ہے، گل ہیں، سبزہ زار بھی ہے

ہو دل غمگیں تو سب بیکار بھی ہے

نہاں ہے اور جلوہ بار بھی ہے

وہ ظاہر ہو کے پراسرار بھی ہے

محبت کیف زا اور شعلہ ساماں

محبت نور بھی ہے، نار بھی ہے

بڑے مجرم ہیں ہم مانا یہ لیکن

سُنا ہے وہ بڑا غفار بھی ہے

نہیں شیوہ کروں میں ترکِ دنیا

اگرچہ اس سے دل بیزار بھی ہے

انہیں کے آستاں کا میں گدا ہوں

کہ اُن کی ہی بڑی سرکار بھی ہے

غلط ہے تہمتِ غفلت شعاری

کہ اکثر دل یہ شب بیدار بھی ہے

محبت کرنے والے جانتے ہیں

کہ یہ ساحل بھی ہے، منجدھار بھی ہے

مئے عرفاں ملے ساقی کے ہاتھوں

مرے پینے کا کچھ معیار بھی ہے

اذانِ حق پہ ملتی ہیں سزائیں

مری منزل نظرؔ دشوار بھی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]