صد شُکر ملی مجھ کو گدائی ترے در کی

حصے میں غلامی مرے آئی ترے در کی

محسوس ہُوا یُوں مجھے حاضر ہوں وہاں میں

جب بات کسی نے ہے سُنائی ترے در کی

نقشہ نہ مرے دل سے نکل پائے گا ہر گِز

تصویر ہے وہ اس میں بسائی ترے در کی

کیا اُس کو غرض دیکھے وہ آرائشِ جنت

نظروں میں چمک جس کی سمائی ترے در کی

قرآن میں جآوُکَ ہے فرمان خدا کا

خالق نے ہے خود راہ دکھائی ترے در کی

وہ صحنِ حرم مسجد و محراب وہ گنبد

دلکش ہے بہت جلوہ نُمائی ترے در کی

جتنے بھی کہ ذی شان ہیں اور جتنے بڑے ہیں

کرتے ہیں بیاں سارے بڑائی ترے در کی

محتاج و گدا یا کہ ہوں سلطانِ زمانہ

ہر ایک نے خیرات ہے پائی ترے در کی

سو بار زیارت ہو تو پھر تِشنہ لبی ہے

رہ رہ کے ہے پھر آس لگائی ترے در کی

جِتنا بھی کروں شُکر ادا اِس پہ وہ کم ہے

مولیٰ نے ہے تنویر دِکھائی ترے در کی

مرزا کے لئے کاش کہ بخشش کی سند ہو

کرتا ہے جو یہ مدح سرائی ترے در کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]