صد شکر کہ پھر لب پہ محمد کی ثنا ہے

پھر وردِ زباں صلِ علیٰ، صلِ علیٰ ہے

بے مہرئ ايام سے مفلس ہیں تو کیا ہے

ہم جس کے بھکاری ہیں وہ دربار بڑا ہے

جس ذرۂ ناچیز کو اس در سے ہو نسبت

نکہت ميں وہ گل ہے تو لطافت میں صبا ہے

ہر صبح ترے ذکر کی خوشبو سے معطر

ہر شام نے اس دل پہ ترا نام لکھا ہے

اے بادِ صبا! پھر کوئی پیغامِ محبت

پھر چشمِ تصور نے انہیں یاد کیا ہے

آمد ہو کہ آورد اُسی در کی عنایت

مدحت کا سلیقہ بھی اُسی در کی عطا ہے

مدحت کے یہ اشعار ہوئے جس کی فضا میں

اک عام سا کمرہ ہے مگر خلد نما ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]