طلعتیں عام ہوئیں، زیست کا پایا ہے سراغ

نُطق کے طاق میں چمکا تری مدحت کا چراغ

ہوسِ تام نے احساس پہ ڈالی ہے کمند

مصدرِ فیضِ اَتم ! دھو مرے دامان کے داغ

ایک ہی شعر میں مہکا تھا وہ اسمِ عالی

دشتِ احساس میں کھِلنے لگے تحسین کے باغ

دل نے جھٹلائی نہیں رویتِ معراجِ نظر

شدتِ دید سے جھپکی نہیں چشمِ ما زاغ

اسم کے ورد نے آسودہ رکھی طبعِ حزیں

نعت کے شوق نے بخشا غمِ وحشت سے فراغ

کیسے تجسیم کریں شعر ترے شوق کے رنگ

نہیں الفاظ سے ممکن تری مدحت کا بلاغ

کچھ نہیں خواہشِ اظہار بجُز نعتِ نبی

لِلّہِ الحمدکہ رکھا ہے سخن کو بے داغ

چھُو نہیں سکتی عقیدت تری مدحت کا علو

سر پٹکتا ہے سرِ نُطق وُفورِ ابلاغ

نقش کرتا ہُوں تصور میں مدینے کی نمود

صیغۂ شوق بنا دیتا ہے دستِ صیّاغ

موجۂ اذن سے کھِلتے ہیں ثنا کے موسم

نُطق کو نعت بناتے ہیں کرم بار ایاغ

سانس در سانس ہے مقصودؔ وہی اسم حیات

کارِ مدحت میں ہی مشغول ہے دل ہو کہ دماغ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]