طنابِ ذات کسی ہاتھ میں جمی ہوئی ہے

کہ جیسے وقت کی دھڑکن یہیں رکی ہوئی ہے

تجھے روا نہیں پیغام وصل کے بھیجیں

لکیر ہجر کی جب ہاتھ پر بنی ہوئی ہے

ہر اک دراڑ بدن کی نمایاں ہوگئی ہے

کہانی درد کی دیوار پر لکھی ہوئی ہے

یونہی تو خواب ہمیں دشت کے نہیں آتے

ہماری آنکھ کہیں ریت میں دبی ہوئی ہے

وہ میرے ساتھ کسی دائرے میں چل رہا ہے

گھڑی کی تیسری سوئی مگر تھمی ہوئی ہے

وہ شخص فیصلہ کرکے گیا نہیں تاحال

کہ آنے والی قیامت ابھی ٹلی ہوئی ہے

وہ آئنے میں مگن، کچھ بھی دیکھتا نہیں ہے

میں کیا بتاؤں ، مری جان پر بنی ہوئی ہے

بدن میں عشق بھی ہلکورے لے رہا ہے زبیر

ہمارے سامنے رسی کوئی تنی ہوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]