عام سا اِک دن

عام سا اِک دن، طلوعِ مہر بھی معمول کا
راہگزارِ وقت پر لمحوں کی بگھی گامزن
اور بگھی کے تعاقب میں بگولا دُھول کا
شہر کی گلیوں میں لمبی سانسیں لیتی زندگی
اِس طرف طفلانِ بے پروا کے کمسن قہقہے
اُس طرف محوِ تلاشِ رزق لوگوں کا ہجوم

دل ۔ دھڑکتے دل ۔ بہت سی خواہشیں پالے ہوئے
آںکھیں ۔ پُر اُمید آنکھیں ۔ خوابِ فردا سے سجی
پاؤں ۔ اَن دیکھے دیاروں کی طرف ہر پل رواں

یک بیک پُر ہول ہلچل ، اِک دھماکا دلخراش
چاروں جانب خون، معصوموں کے تن کے لوتھڑے
موت خود ششدر، فلک حیران، عزرائیل گنگ

کانپتے ہاتھوں سے ٹیلی فون کرتی اُنگلیاں
سُرخ اندیشوں کی آندھی ، جان و دل کے خارو خس
اک خبر۔ گالوں پہ بہتے گرم آنسو ۔ اور بس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]