عجیب دکھ تھا کہ اقرار ہو نہیں رہا تھا

میں چپ رہا تھا کہ انکار ہو نہیں رہا تھا

مری اور اس کی محبت کا ذکر تھا جس میں

میں اس کہانی کا کردار ہو نہیں رہا تھا

کسی کی ہلکی سی مسکان سے سلگتا دل

وہ آئنہ تھا جو دیوار ہو نہیں رہا تھا

غضب کی دھوپ تھی سلگا رہی تھی جسم وجاں

سروں پہ سایۂ دیوار ہو نہیں رہا تھا

طبیبِ عشق تو سب ہاتھ مل رہے تھے مگر

کسی کا حسن کہ بیمار ہو نہیں رہا تھا

تمام نقش اتارے گئے تھے پانی پر

پہ صاف دل سے وہ زنگار ہو نہیں رہا تھا

بھری ہے عشق نے جیبوں میں سانس کی نقدی

یہ کاروبار بھی بیکار ہو نہیں رہا تھا

غزل کی آنکھ میں تھے رتجگے زمانوں کے

خیال، خواب سے بیدار ہو نہیں رہا تھا

کھلونے توڑنے اور جوڑنے میں ہی لگا ہے

یہ دل ہمارا سمجھدار ہو نہیں رہا تھا

نبھا رہے تھے سبھی شور کی ادا کاری

خموش ایک بھی فنکار ہو نہیں رہا تھا

کوئی ہنسی تھی کہ دل ڈولنے لگا تھا زبیرؔ

وہ ایک اشک جو پتوار ہو نہیں رہا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]