عشق سے پہلے بُلاتا تھا میں تُو کر کے اُسے

لیکن اب تو سوچتا بھی ہوں وضو کر کے اُسے

اُس کا مقصد قتل ہے میرا تو بسم اللہ کرے

سرخرو ہو جاؤں گا میں سرخرو کر کے اُسے

سرخ انگاروں بھری وہ آگ جب بُجھنے کو تھی

رکھ لیا میں نے رگ و پَے میں لہو کر کے اُسے

!اتنی آسانی سے مت کھونا اُسے ، اے میرے دل

یاد ہے پایا تھا کتنی جُستجو کر کے اُسے ؟

شکر ہے فارس تُو ہرنی کی مدد کو آگیا

بھیڑیئے دہلا رہے تھے ہاؤ ہُو کر کے اُسے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]