عشق پھر سے مجھے نیا کر دے

ہر بھرے زخم کو ہرا کر دے

آسرا چھین لے مسیحا کا

مجھے مرہم سے ماورا کر دے

زہر بننے لگا ہے سناٹا

شور مجھ میں کوئی بپا کر دے

میں اک آشوبِ اعتبار میں ہوں

اپنی آنکھیں مجھے عطا کر دے

ترے رستے میں ہم سفر کیسا

مجھے سائے سے بھی جدا کر دے

میں مکمل بھی ہو ہی جاؤں گا

تو کسی روز ابتدا کر دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]