عقل تو خوش ہے مری تردید پر

دل کھڑا ہے پر رہِ توحید پر

بات نے آخر پہنچنا ہے وہیں

ہنس رہا ہوں میں تری تمہید پر

سارے بچوں میں مرا بچپن ہی ہے

جھنجلاتے ہیں مری تاکید پر

سامنا اس سے ہوا ہے آج پھر

جی اٹھا ہوں درد کی تجدید پر

جائیے تو اب کدھر کو جائیے

بیٹھیے تو کس درِ امید پر

جھلملاتے ہیں کئی یادوں کے دیپ

اک چراغاں ہے مزارِ دید پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]