غربت کا بھی احساس کہاں شہر بدر کو

پھرتا ہے جنوں دوش پہ لادے ہوئے گھر کو

دھڑکن ہے کہ حلقوم میں پھر گونج رہی ہے

اب کون سی حسرت ہے دلِ سوختہ سر کو

اس شہرِ فراموش میں کیا فرق رہا ہے

کس طور جدا جانئے دیوار سے در کو

دل کھول کے رونے کے تعیش کی ہوس میں

اب اور نچوڑوں بھی تو کیا دیدہِ تر کو

تو ہے کہ پکڑتا ہے جڑیں دل کی زمیں میں

اور خواب کے سند باد نے جانا ہے سفر کو

پھر بیت گئی عمر ہی دریوزہ گری میں

سجدے سے اٹھایا ہی نہیں آس نے سر کو

ممکن نہ سہی کوئی سحر ، شب کے تسلسل

اتنا ہو کہ بس دیکھ سکوں خوابِ سحر کو

ڈھانپے ہے کہاں ستر ، منازل کی بھی چادر

یونہی تو نہیں اوڑھ لیا راہ گزر کو

خاموش فضاؤں میں معلق ہیں دعائیں

ترسے ہے مری آہ زمانے سے اثر کو

پہلے بھی کبھی سوچ کے کے اٹھے ہیں قدم کیا

طے کر مری وحشت مجھے جانا ہے کدھر کو

آہن پہ ہی انجام ہوئے تجربے لیکن

لوہے پہ قناعت نہ سکھا کیمیا گر کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]