غرورِ شب کو کھٹکتا تھا اور ہی صورت

وہ بجھ گیا کہ بھڑکتا تھا اور ہی صورت

یہ پیار ، پیار نہیں تھا ، جدا کوئی شئے تھی

میں تجھ پہ جان چھڑکتا تھا اور ہی صورت

قدم تو خیر بگولوں کو پائلیں کرتے

مگر جنون بھٹکتا تھا اور ہی صورت

یہ زیر و بم جو ہوا ، نسبتاً سکوت ہوا

دلِ تباہ دھڑکتا تھا اور ہی صورت

اسی ادا سے جھٹک ہاتھ میرا کم سے کم

تو اپنی زلف جھٹکتا تھا اور ہی صورت

ترے تو بس میں ترامیم تھیں مرے خالق

کوئی بنا بھی تو سکتا تھا اور ہی صورت

سخن کی لو کہ بحالِ جنون بھی نہ بجھی

میں اول فول بھی بکتا تھا اور ہی صورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]