غم نیا تھا تو نیا عہدِ وفا رکھنا تھا

حوصلہ غم سے بہرحال سوا رکھنا تھا

کیسے اُس پر میں مقدر کی سیاہی رکھتا

جس ہتھیلی پہ مجھے رنگِ حنا رکھنا تھا

ایسا کیا ڈر تھا بھلا تیز ہوا سے لوگو

بجھ گئیں شمعیں تو آنکھوں کو کھُلا رکھنا تھا

ہم نہ خوشبو تھے، نہ آواز، نہ بادل کوئی

پھر ہواؤں سے تعلق بھلا کیا رکھنا تھا

اس قدر بھی تو نہیں رکھتے زمیں کو بنجر

دل کے ویرانے میں اک نخلِ انا رکھنا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]