غمِ فرقت کا چارہ ہی نہیں ہے

مرا تجھ بن گزارا ہی نہیں ہے

کہاں ہے آئینے کی راست گوئی

یہ چہرہ تو ہمارا ہی نہیں ہے

پریشاں زلف تھی غم میں تمہارے

اسے ہم نے سنوارا ہی نہیں ہے

تماشا دیکھنے کو آئے ہیں وہ

جنھیں ذوقِ نظارا ہی نہیں ہے

اُسے کیوں وقت میں شامل کروں میں

اُسے میں نے گزارا ہی نہیں ہے

اُسے بھی زینؔ میں سُننے چلا ہوں

مجھے جس نے پکارا ہی نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]