غنچۂ نعت جو ہونٹوں پہ چٹک جاتا ہے

وادیٔ جاں کا ہر اک گوشہ مہک جاتا ہے

یہ تو چلتا ہے پتا شہرِ مدینہ جا کر

کیسے انسان کوئی تا بہ فلک جاتا ہے

جو نہیں رکھتا نظر نقشِ قدم پہ اُن کے

ایسا انسان اندھیروں میں بھٹک جاتا ہے

اب نہیں کوئی بھی منزل مرے دل کی منزل

یہ تو سرکار کی دہلیز تلک جاتا ہے

ان کی توصیف کے آفاق کروں طے کیسے

طائرِ فکر مرا راہ میں تھک جاتا ہے

عندلیبانِ ریاض نبوی میں ہے صبیحؔ

بزمِ مدحت نظر آئے تو چہک جاتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]