فردوس کا نمونہ بہر اعتبار ہے
سرکار کا مدینہ بڑا شاندار ہے
حاصل ہوا ہے جب سے شہہ دو جہاں کا غم
حاصل ہمارے دل کو سکون و قرار ہے
طرز کلام ، طرز تخاطب ، خرام ناز
ہر اک ادا حضور کی رحمت شعار ہے
کچھ بھی کہوں زبان سے حاجت نہیں مجھے
مافی الضمیر ان پہ مرا آشکار ہے
شبنم نہیں ہے رونق طیبہ کو دیکھ کر
کم مائیگی پہ اپنی فلک اشک بار ہے
دارائی اس کے در پہ کھڑی ہے بصد نیاز
اس در کے خوشہ چینوں میں جس کا شمار ہے
با ہوش ان سے لیتے ہیں آ آ کے درس ہوش
حاصل جنہیں بھی عشق نبی کا خمار ہے
ہر لمحہ گونجتا ہے اذان و صلوٰۃ میں
سب تذکروں میں ذکر نبی کی بہار ہے
اب دشمنان دیں کے سروں کی نہیں ہے خیر
ہاتھوں میں بو تراب کے اب ذوالفقار ہے
میری بلا سنوارے عروسِ غزل کی زلف
مجھ کو تو نعت باعث صد افتخار ہے
اے نورؔ شہر نعت میں ہوجائیے مقیم
آب و ہوا یہاں کی بڑی سازگار ہے