فضلِ رب سے طیبہ آیا ، میں کہاں طیبہ کہاں

کرتا ہوں میں شکر رب کا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں

یاالٰہی ! اِذن دے کعبہ سے طیبہ کا مجھے

بس یہی ہے اِک تمنا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں

خانۂ کعبہ میں آکر دل ہُوا ہے باغ باغ

پھر وہ طیبہ یاد آیا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں

خاتمہ بالخیر ہو طیبہ میں میرا اے خدا

آرزو ہے یہ خدایا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں

یاالٰہی ! اِذن دے کعبہ سے طیبہ کا مجھے

بس یہی ہے اِک تمنا ، میں کہاں طیبہ کہاں

طوفِ کعبہ کر رہا تھا طاہرِؔ خستہ مگر

آ رہا تھا یاد بطحا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]