فضلِ رب سے طیبہ آیا ، میں کہاں طیبہ کہاں
کرتا ہوں میں شکر رب کا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں
یاالٰہی ! اِذن دے کعبہ سے طیبہ کا مجھے
بس یہی ہے اِک تمنا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں
خانۂ کعبہ میں آکر دل ہُوا ہے باغ باغ
پھر وہ طیبہ یاد آیا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں
خاتمہ بالخیر ہو طیبہ میں میرا اے خدا
آرزو ہے یہ خدایا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں
یاالٰہی ! اِذن دے کعبہ سے طیبہ کا مجھے
بس یہی ہے اِک تمنا ، میں کہاں طیبہ کہاں
طوفِ کعبہ کر رہا تھا طاہرِؔ خستہ مگر
آ رہا تھا یاد بطحا ، مَیں کہاں طیبہ کہاں