قربت سے ناشناس رہے ، کچھ نہیں بنا

خوش رنگ ، خوش لباس رہے ، کچھ نہیں بنا

ہونٹوں نے خود پہ پیاس کے پہرے بٹھا لئے

دریا کے آس پاس رہے ، کچھ نہیں بنا

اب قہقہوں کے ساتھ کریں گے علاجِ عشق

ہم مدتوں اداس رہے ، کچھ نہیں بنا

جس روز بے ادب ہوئے ، مشہور ہوگئے

جب تک سخن شناس رہے ، کچھ نہیں بنا

اس شخص کے مزاج کی تلخی نہیں گئی

ہم محوِ التماس رہے ، کچھ نہیں بنا

پھر ایک روز ترکِ محبت پہ خوش ہوئے

کچھ دن تو بدحواس رہے ، کچھ نہیں بنا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]