قریب آ کے ہمیں اور دور جانا تھا

چراغ جلتے ہی آنکھوں کا نور جانا تھا

تمہیں بھی جاہلوں کے پیر چھونے آگئے ہیں

تمہیں تو میں نے بڑا با شعور جانا تھا

وہ ڈوبنے کی اداکاری کرتے ڈوبا ہے

وگرنہ میں نے مدد کو ضرور جانا تھا

بچھڑ کے آپ سے دنیا کے ہو گئے تو کیا

کسی طرف تو ہمیں اب حضور جانا تھا

دکھوں کے رنگ دہکتے تھے دل کی شاخوں پر

وہ جن کو میں نے محبت کا بور جانا تھا

جسے خدا کی رضا کے لیے بجا لایا

وہی عمل مرا سب نے فجور جانا تھا

ہمارے عاجزی پر کس طرح نہ ہنستے لوگ ؟

ہمارے عجز کو سب نے غرور جانا تھا

کسی کے وصل کو آغاز ِ زندگی سمجھا

کسی کے ہجر کو یوم نشور جانا تھا

عدو کے ہاتھ بکا ہے وہی سپاہی فقیہہ

وہ جس کو حد سے زیادہ غیور جانا تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]