قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

دھڑکنوں میں بھی درودی کیف سا چھانے لگا

ہیں نخیلِ نُور یا قدسی قطار اندر قطار

جگمگاتا سا حسیں منظر نظر آنے لگا

سبز گنبد سامنے ہے اور آنکھیں اشکبار

پھر مقدّر دید کی امّید بر لانے لگا

کہکشاں شمس وقمر راہوں میں ایسے بچھ گئے

آسماں جیسے زمیں کو چومنے آنے لگا

آرزوئیں پا برہنہ خواہشیں بھی دم بخود

آنکھ پتھرائی ہوئی اور دل بھی شرمانے لگا

کیوں کسی کو مانگنے کی اب یہاں حاجت رہے

بے طلب ہی ہر گدا خیرات جب پانے لگا

روح کی تغسیل جب اشکِ ندامت سے ہوئی

دل ہوا مُحرِم طوافِ شوق کو جانے لگا

لوٹ بھی جاؤں میں شہرِ نور سے نوری اگر

دل بہانہ جُو ہے میرا ’’کیوں بھلا‘‘ جانے لگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]