قطارِ اشک مری ہر اُمنگ بھول گئی

کمال ضبط کا، پلکوں کا سنگ بھول گئی

زمیں پہ عرصۂ معراج تھا بڑا مشکل

حیات سانس بھی لینے کا ڈھنگ بھول گئی

پیا ہے جب سے سماعت نے انگبینِ ثنا

ہر ایک ساز ہر اک جلترنگ بھول گئی

زمیں نے اوڑھ لیا رنگِ گنبدِ خضریٰ

زمین اِس کے سوا سارے رنگ بھول گئی

نظر نے سوچا تھا مانگے گی اُن سے خلدِ بریں

مدینہ دیکھا، ہوئی ایسی دنگ بھول گئی

گئی ہے تنہا مری روح جانبِ بطحا

وہ میرے جسم کا ہر ایک انگ بھول گئی

پرائی ریت بھی کربل میں اشکبار ہوئی

وفورِ درد سے لمحوں میں جنگ بھول گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]