لبوں پہ جس کے محمد کا نام رہتا ہے
وہ راہِ خُلد پہ محوِ خرام رہتا ہے
جو سَر جُھکائے محمد کے آستانے پر
زمانہ اس کا ہمیشہ غلام رہتا ہے
ہمیں نہ چھیڑ کہ وارفتگانِ بطحا ہیں
ہمیں تو شوقِ مدینہ مدام رہتا ہے
وہ دو جہاں کے اَمیں ہیں، انہی کے ہاتھوں میں
سپردِ کون و مکاں کا نظام رہتا ہے
جو غمگسار ہے نادار اور غریبوں کا
وہ قدُوسیوں میں بھی عالی مقام رہتا ہے
لگن ہے آلِ مدینہ کی جس کے سینے میں
وہ زندگی میں بہت شاد کام رہتا ہے
ہمیں ضرورتِ آبِ بقا نہیں ساغرؔ
ہمارے سامنے کوثر کا جام رہتا ہے