لرزتے ہاتھ سے سیدھا لحاف کرتے ہوئے

وہ رو رہا تھا مرے زخم صاف کرتے ہوئے

یہ شہر ابنِ زیاد اور یزید مسلک ہے

یہاں پہ سوچیے گا اعتکاف کرتے ہوئے

چراغ ہم نے چھپائے ہیں کیا تہہ _ دامن

ہوائیں گزری ہیں دل میں شگاف کرتے ہوئے

نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری

تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے

اسی لیے تو مرے جرم ہیں سبھی کو پسند

کہ میں جھجکتا نہیں اعتراف کرتے ہوئے

کسی کے لمس کی سردی اتر گئی ہے آج

دہکتی دھوپ بدن کا غلاف کرتے ہوئے

ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ

پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے

ثواب سارے مرے لے گیا وہ شخص فقیہہ

کسی گناہ پہ مجھ کو معاف کرتے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]