لغزشِ پا ترے کہنے پہ نہ چلنے سے ہوئی

ساری تکلیف مجھے راہ بدلنے سے ہوئی

رات رو رو کہ کٹی شمع کی اللہ اللہ

غم زدہ کیسی یہ پروانوں کے جلنے سے ہوئی

نزع دم دیکھنے آئے مجھے طوعاً کرھاً

ایک راحت تو طبیعت نہ سنبھلنے سے ہوئی

مجھ کو تکلیف نہ پہنچی اسی باعث شاید

ان کو راحت مرے جذبات کچلنے سے ہوئی

کلکِ قدرت نے جو لکھا ہے وہ حرفِ آخر

منکشف بات یہ قسمت نہ بدلنے سے ہوئی

دل بھی اب سرد پڑا ختم ہوا جوشِ لہو

کیسی حالت یہ سب ارماں کے نکلنے سے ہوئی

شبِ فرقت کے اندھیروں میں یہ ہم نے دیکھا

روشنی کوئی نہ تاروں کے نکلنے سے ہوئی

چٹکیوں میں تھی نظرؔ اپنی بساطِ دنیا

مات افسوس کہ اک چال بدلنے سے ہوئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]