لکھ رہا ہوں مدحتِ شاہنشہِ گردوں سریر

المدد اے خالقِ کون و مکاں نعم النصیر

ذکرِ خیرِ مصطفیٰ ہے موجبِ خیرِ کثیر

ہو خدا راضی قلوبِ بندگاں ہوں مستنیر

فیض یابِ نور تھا ہر ذرۂ کون و مکاں

جلوہ گر تھا عرش پر جس رات وہ بدرِ منیر

دیدنی ہے فقر اس کا جاہِ شاہانہ کے ساتھ

زندگی کر دی بسر بر لقمۂ نانِ شعیر

اس کے نورِ باطنی کا یہ تصرف مرحبا

ہم نشیں اس کے رہے جو، ہو گئے روشن ضمیر

راہِ حق سے تا نہ بھٹکیں رہروانِ زندگی

صفحۂ ہستی پہ اس نے کھینچ دی سیدھی لکیر

دین و دنیا دونوں بن جائیں اگر ہے آرزو

اس کے بتلائے ہوئے رستوں پہ چلنا ناگزیر

جس میں جتنا ظرف ہو حکمت کے موتی رول لے

از کتابِ اَلعزیز اتری جو اس پر بے نظیر

اس کی خوشنودی ملے تو رب کی خوشنودی ملے

یعنی خوشنودی ہے اس کی موجبِ فوزِ کبیر

حشر کی رسوائیوں سے ڈر رہا ہوں میں شہا

ہو کرم کی اک نظرؔ مجھ پہ بوقتِ دار و گیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]